matloobwarraich@yahoo.com -
001-647-6276783
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contact us
Chairman
Punjab National
Party Pakistan
(PNPP)
Senior Columnist Daily Nawa-e-waqt, Lahore.
Chief Editor Daily Peoples Lahore
Political & Military Analyst, Consultant, Lobbyist, Author, Poet
پاک امریکہ تعلقات عالمی تناظر میں
Dated: 24-Nov-2020
امریکہ دنیا میں اگر کسی کا دوست ہے تو وہ خود اپنا دوست ہے۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے پولیس سے دوستی اچھی ہے نہ دشمنی۔ امریکہ پر بھی یہ مقولہ درست لاگو ہوتا ہے۔ اس کا امریکی وزیر داخلہ ہنری کسنجر نے اظہار اس طرح کیا تھا کہ امریکہ سے دوستی اور دشمنی دونوں ہی کسی ملک کے لیے سودمند نہیں ہو سکتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ سے کسی بھی ملک کی دوستی اس کے ساتھ دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے جس کی ایک مثال پاکستان ہے۔ دوستی کے زعم میں پاکستان نے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے بحری بیڑے کا انتظار کیا مگر وہ بیڑا کبھی پاکستان نہ پہنچ سکا۔ ہر ملک کی طرح امریکہ کو اپنا مفاد عزیز ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اپنے ملک کے مفاد کا تحفظ جینوئن قیادتیں ہی کر سکتی ہیں۔ بزدل لالچی اور کرپٹ قیادتیں ہرگز نہیں کر سکتیں۔ ملک کے مفاد کی مستقل ضمانت اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے۔ ایک موقع پر اسٹیبلشمنٹ بھی ملکی مفاد پر کمپرومائز کرتی نظر آئی، جس کے ثبوت اوباما کی کتاب سے اظہر من الشمس ہوتے ہیں۔ اوباما نے اسٹیبلشمنٹ کا نام تو نہیں لیا البتہ اس منظرنامے سے یہی اخذ ہوتا ہے۔ اوباما نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 2011ء کو اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں ہلاک کیا گیا تو وائٹ ہائوس میں بڑی ڈسکشن ہوئی۔ نائب صدر جوبائیڈن نے اس کی مخالفت کی، ان کا موقف تھا کہ یہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کی سلامتی کے خلاف اقدام ہوگا اور پاکستان اسے برداشت نہیں کرے گا۔ یہ وہی جابائڈن ہیں جنہوں نے پاکستان سے شدت کے ساتھ ڈو مور کا مطالبہ کیا تھا DO MORE لفظ جوبائڈن کی ایجاد ہیاوباما کے بقول انہوں نے فیصلہ حملے کے حق میں کیا اور اسامہ کو ہلاک کر دیا۔ اس کالم نگار کو اسامہ بن لادن سے کوئی ہمدردی نہیں مگر امریکہ کا طریقہ کار غلط تھا۔ اوباما کہتے ہیں کہ ان کے لیے اس حوالے سے صدر زرداری سے فون کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ پاکستان کے صدر غصے میں ہوں گے جیسا کہ ہر پاکستانی اسامہ بن لادن پر پاکستان میں حملے کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کر رہا تھا۔اوباما کہتے ہیں کہ انہوں نے صدر زرداری کو فون کیا تو انہوں نے امریکہ کے اس اقدام پر مبارک باد دی جس پر میں حیرت زدہ رہ گیا۔ اور پھر یہ مبارک وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ٹی وی پر بھی چلوا دی۔ عوامی شدید اشتعال کو دیکھتے ہوئے وہ بیان واپس لے لیا اور پھر خاموشی اختیار کر لی۔ یہ وہی حکومت تھی جس نے امریکہ سے کہا تھا ہم ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے رہیں گے عوام کو مطمئن کرنے کیلئے حملے آپ جاری رکھیں۔ اس وقت جینوئن قیادت ہوتی تو اوباما کو مبارک باد نہ دیتی۔ پرچی پر پارٹی قیادت حاصل کرنے والے یہی کچھ کر سکتے تھے اور پھر پارٹی میں بے نظیر بھٹو کے بااعتماد ساتھیوں کو سائیڈ لائن کر دیا گیا کئی خاموش ہو کے بیٹھ گئے اور کئی پارٹی ہی چھوڑ گئے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو مائنس نہیں کیا جا سکتا۔ اسٹیبلشمنٹ یہ بھی کر سکتی ہے کہ عوام کے سامنے سچ لائے۔ اگر سچ نہیں لایا جائے گا تو افواہیں جنم لیتی ہیں۔ مرضی کا بیانیہ میڈیا میں چلایا جاتا ہے۔ عدلیہ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو مفرور قرار دیا ہے۔ ان کو جیل پہلے ہی ہو چکی ہے۔ مفرور اور اشتہاری کو میڈیا پر نہیں دکھایا جا سکتا۔ ہمارے ہاں باقاعدہ نوازشریف پر لگی پابندی کو ختم کرانے کی مہم چل رہی ہے۔ الطاف کے پروردہ بھی کل اس کے خلاف پابندی ہٹانے کے لیے سامنے آ سکتے ہیں۔ مغرب میں جس شخص کو جیل ہو جائے اس کے ساتھ صرف بیوی کو ملاقات کی اجازت ہوتی ہے باقی کسی کو نہیں۔ ہمارے ہاں قیدی سے جیل میں سیاسی پارٹیوں کے وفود ملتے ہیں۔ مفرور کو تقریروں کی ٹی وی پر اجازت دینے کی مہم دیکھ کر مغرب میں لوگ مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک اور مذاق گلگت بلتستان میں انتخابی نتائج مسترد کرنے پر بھی اڑایا جاتا ہے۔ نتائج ماضی روایت کے مطابق ہیں ۔ مریم نواز کہتی ہیں کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں لوگ مرکز میں حکومت کرنے والی پارٹی کو حکومت میں لاتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مسائل حل کر سکتی ہے۔ ساتھ ہی کہتی ہیں الیکشن میں لوگوں نے مسلم لیگ ن کو ووٹ دیا مگر دھاندلی کی گئی ہے۔بلاول تو دھرنے دے رہے ہیں ۔پی پی پی اور ن لیگ کی قیادت ایک دوسرے کے ساتھ اتنی مخلص ہیں کہ گلگت بلتستان میں الیکشن الگ الگ لڑا اب دھاندلی پر متفق ہیں مگر ایک صرف دشنام طرازی کررہی ہے دوسری پارٹی دھرنے دے رہی ہے۔ گذشتہ ہفتے دو واقعات پاکستان میں پیش آئے۔ ایک تو علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کا ویصال اور دوسرا میاں نوازشریف اور شہبازشریف کی والدہ اور مریم نواز شریف کی دادی محترمہ بیگم شمیم اختر مرحومہ انتقال فرما گئیں۔مذہبی ،سیاسی ،مسلکی اور نظریاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر میں تحریک لبیک کے کارکنان اور شریف خاندان سے تعزیت کرتا ہوں ۔مائیں سب کی سانجھی ہوتی ہیں اور عزتیں بھی سب کی سانجھی ہونی چاہئیں۔یہ زندگی صدا قائم نہ رہنے والی ہے اس میں اپنے ملک و وطن اور احباب کے لیے اچھی سوچیں چھوڑ کر جانا چاہیے۔ قارئین!گذشتہ ہفتے پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان کے زیراہتمام پنجابی ماں بولی کی تربیت کے لیے ایک کامیابی ریلی نکالی گئی ، جس میں احمدرضاوٹو صاحب ،مدثر بٹ صاحب ،عامر شہزاد صاحب ،پروفیسر طارق جٹالہ اور میاں آصف صاحب کی کاوشوں سے پنجابی تحریک اب پنجاب کے یوتھ کی فیورٹ تحریک بن چکی ہے۔اور وہ دن دور نہیں جب ہماری نئی نسل کو پنجابی لکھنے، پڑھنے، بولنے کی مکمل آزادی ہو گی۔یہ تحریک پنجاب کی آزادی کے لیے نہیں بلکہ پنجابی کی آزادی کے لیے چلائی جا رہی ہے۔
Column Name
Search
Select Year
2011
2012
2013
2014
2015
2016
2017
2018
2019
2020
2021
Select Month
January
February
March
April
May
June
July
August
September
October
November
December
Search
Next
Home
Back
Main Menu
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contacts
Published Books
Afkar e Sehar
Benazir Bhutto
Edison
Grand Agenda
Jeenay ka Fun
Sadion Ka Beta
Taliban Aur Aalmi Aman
Jalawattan Leader
Mashriq Maghrib Milaap
Pakistan Ki Kharja Policy
Sohar Wardi sey Wardi Tak
The Great Three
20 Dictators of The 20th Century
Hakayat Roomi
Taliban: The Global Threat