matloobwarraich@yahoo.com -
001-647-6276783
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contact us
Chairman
Punjab National
Party Pakistan
(PNPP)
Senior Columnist Daily Nawa-e-waqt, Lahore.
Chief Editor Daily Peoples Lahore
Political & Military Analyst, Consultant, Lobbyist, Author, Poet
بابری مسجد سے کرک مندر تک
Dated: 12-Jan-2021
مسجد ڈھا دے، مندر ڈھا دے ڈھیندا جو کُج ڈھا دے اک بندے دا دل نہ ڈھاویں رَبّ دِلاں وِچ رہندا قارئین! ہم نے مذہب کی کتابوں میں پڑھا ہے ۔ اللہ تعالی خودفر ماتے ہیںکہ ’’کسی کے خدا کو بُرا مت کہو وگرنہ جواب میں وہ بھی آپ کے خدا کو بُرا بھلا کہہ سکتا ہے‘‘ بھارت سیکولر ملک ہے۔ بھارتی میڈیا، اس کے سیاستدان اور سول سوسائٹی بڑے فخر سے بھارت کو سیکولر قرار دیتے ہیں۔ سیکولر کا مطلب دہریت نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب سیکولر ملک میں مذہبی غیرجانبداری ہے اور بھارت دنیامیں خود کو ایسا ہی باور کراتا ہے۔ مگر بھارت کبھی بھی سیکولرنہیں رہا۔ وہاں ہمیشہ سے ہندو شدت پسندی مروج رہی ہے۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کبھی کسی مسلمان کو صدر بنا دیا جاتا ہے کبھی منموہن سنگھ جیسے شخص کو وزیراعظم لگا دیا جاتا ہے۔ وہاں اقلیتوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے ۔پوری دنیا اس سے واقف ہے اور اسی بنا پر وہاں آزادی کی دو درجن سے زائد تحریکیں چل رہی ہیں۔ بھارتی سیاستدان وہ آج کے حکمران ہوں یا ماضی کے، اقلیتوں کے بارے میں ان کا تعصب ایک جیسا ہے۔ مسلمان اور سکھ تو ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہیں۔ یہ تعصب صرف سیاستدانوں، میڈیا اور بیورکریٹس کی حد تک ہی نہیں ہے ہندوستان کی عدالتیں بھی اقلیتوں خصوصی طور پر مسلمانوں کے خلاف بغض اور عناد سے بھری پڑی ہیں اور وہ صحیح معنوں میں حکومت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اسی حوالے سے کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم اور تازہ ترین مثال بابری مسجد کو گِرا کر رام مندر کی تعمیر کا فیصلہ ہے۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے 5رکنی بنچ نے دیا جس میں ایک مسلمان جج عبدالنذیر بھی شامل تھا اسے شاید اپنی سلامتی اور اپنے خاندان کی جانیں عزیز تھیں کہ اس نے بھی تعصب ،کینے اور مسلمانوں کے ساتھ عناد پر مبنی فیصلے سے اپنے ضمیر کی گواہی کے برعکس اتفاق کر لیا حالانکہ یہ فیصلہ الٰہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف تھا اس فیصلے کو بھی مسلمانوں کی طرف سے قبول نہیں کیا گیا تھا۔ ہائیکورٹ کے فیصلے میں بابری مسجد کو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ مسجد دوسرا مندر کے لیے مختص کیا گیا اور تیسرا نرموہی اکھاڑے کے حوالے کرنے کو کہا گیا۔اس فیصلے کو مسلمانوں اور ہندوئوں نے چیلنج کیا تھا جس پر سپریم کورٹ کا انصاف کو قتل کرنے والا فیصلہ سامنے آیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق آرکیالوجیکل سروے انڈیا (اے ایس آئی) نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ متنازع زمین پر 12 ویں صدی عیسوی میں مندر تھا اور نہ ہی خاص طور پر یہ بتایا کہ بابری مسجد کے نیچے پائی جانے والی تعمیرات مندر کی تھیں۔ اے ایس آئی رپورٹ میں اس انتہائی اہم بات کا جواب نہیں دیا گیا کہ بابری مسجد کسی مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی۔‘‘سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا کہ ایسے ثبوت نہیں ملے کہ اس جگہ کبھی مندر بھی تھا اور بابری مسجد مندرمندر گرا کر بنائی گئی تھی ۔ ایسا تھا تو پھر یہ جگہ مندر بنانے کے لیے کیوں چھوڑ دی گئی؟ یہی ایک پوائنٹ بھارتی سپریم کورٹ کا مسلمانوں سے تعصب اور نفرت کو ظاہر کرتاہے۔ دوسری طرف پاکستان ہے جو سیکولر نہیں اسلامی جمہوریہ ہے جس میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کسی بھی ملک سے بڑھ کر کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی کچھ عناصر بیرونی اشاروں پر کبھی کبھی اقلیتوں کے خلاف کوئی حرکت کر جاتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں فرق یہ ہے کہ ایسے واقعات کو کبھی بھارت کی طرح چھپایا نہیں جاتا ۔ میڈیا میں کوریج ہوتی ہے اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال کرک مندر کو جلایا جانا ہے۔ یہ ایک شرمناک واقعہ ہے مگر جیسے ہی یہ واقعہ رونما ہوا پوری حکومتی مشینری حرکت میں آ گئی۔ 400لوگوں کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔ لوگوں کو اس اقدام پر اکسانے والوں سمیت ڈیڑھ سو افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ مندر کی فوری طور پر تعمیر اور مرمت کا فیصلہ ہوا۔ پورا پاکستان ہندوبرادری کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا۔ سپریم کورٹ نے فوری نوٹس لیا۔ انکوائری کمیشن بنا جس نے 48گھنٹے میں رپورٹ مرتب اور اس کی سفارشات پر عمل بھی شروع ہو گیا۔ ایسا بھارت میں کبھی نہیں ہوا۔ ایسے مائنڈ سیٹ کے پیچھے یقیناً بھارتی ہاتھ ہے۔اور یہ وہی ذہنیت ہے جو مچھ میں 11ہزارہ مزدوروں کے بہیمانہ قتل میں ملوث ہے۔ ان لوگوں نے اپنی بدباطنی اور خبث کو کبھی چھپایا نہیں، برملا اعلان کرتے ہیں ۔ شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ اوپر سے نیچے تک افغانستان ہے۔ دیکھتے ہیں ریاست اس مائنڈ سیٹ پر کیسے قابو پاتی ہے ۔سردست تو انہوں نے ریاست کو سٹینڈسٹل کر رکھا ہے۔ قارئین!گذشتہ روز ’’نوائے وقت ‘‘کے ہمارے ساتھی اور معروف کالم نویس یاسین وٹو صاحب وفات پا گئے ہیں اور سوموار کو ان کا نمازِ جنازہ ادا کر دیا گیا۔یاسین وٹو (مرحوم) لاہور شہر کی ادبی محفلوں کی جان تھے اور انہیں مجید نظامی (مرحوم)اور چیف ایڈیٹر رمیزہ مجید نظامی سمیت نوائے وقت فیملی کی ہمیشہ مکمل آشیرباد اور دعائیں حاصل رہیں۔محترم وٹو صاحب میاں شریف برادران کے بھی انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔مرحوم محمد یاسین وٹو صاحب کو ستارہ شناسی اور دست شناسی پر عبور حاصل تھااور وہ اس فن کو صرف فن نہیں سمجھتے اکثر محافل کی جان تصور کیے جاتے تھے۔ مرحوم کا اندازِ سخن اور الفاظ کو پرونے کا انداز جداگانہ اور یکتا تھا۔میری اور ’’نوائے وقت‘‘ کے قارئین کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان کے کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کو معاف فرمائے۔آمین
Column Name
Search
Select Year
2011
2012
2013
2014
2015
2016
2017
2018
2019
2020
2021
Select Month
January
February
March
April
May
June
July
August
September
October
November
December
Search
Next
Home
Back
Main Menu
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contacts
Published Books
Afkar e Sehar
Benazir Bhutto
Edison
Grand Agenda
Jeenay ka Fun
Sadion Ka Beta
Taliban Aur Aalmi Aman
Jalawattan Leader
Mashriq Maghrib Milaap
Pakistan Ki Kharja Policy
Sohar Wardi sey Wardi Tak
The Great Three
20 Dictators of The 20th Century
Hakayat Roomi
Taliban: The Global Threat