matloobwarraich@yahoo.com -
001-647-6276783
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contact us
Chairman
Punjab National
Party Pakistan
(PNPP)
Senior Columnist Daily Nawa-e-waqt, Lahore.
Chief Editor Daily Peoples Lahore
Political & Military Analyst, Consultant, Lobbyist, Author, Poet
باؤ جی
Dated: 26-Jan-2021
جہاں تک مجھے علم ہے نوازشریف کی شخصیت پر کوئی مکمل کتاب موجود نہیں ہے اور میاں صاحب نے بھی اپنے بارے میں لکھنے کے لیے قلم نہیں اٹھایا۔ ’’بائو جی‘‘ کے ٹائٹل کے تحت کتاب لکھنے کی طرف میرا دھیان میاں نوازشریف کی اہلیہ کلثوم نواز کے انتقال کے موقع پر گیا۔ ان دنوں شریف خاندان ایک گہرے صدمے کی کیفیت میں تھا۔ ایک طرف کلثوم نواز زندگی و موت کی کشمکش میں تھیں ،دوسری طرف ان کی تیمارداری کے لیے وہاں موجود ان کے زندگی کے ساتھی میاں نوازشریف اور دخترمریم نواز کو جیل سے بلاوے آ رہے تھے اور بات یہیں پر تمام نہیں ہوئی تھی۔ مخالفین کلثوم نواز کی بیماری کو ایک ڈرامہ اور بہانہ قرار دے کر شریف خاندان کے زخم کُرید رہے تھے۔ کسی نے کیا زبردست کہا تھا کہ یہاں خود کو بیمار ثابت کرنے کے لیے مرنا پڑتا ہے۔ کلثوم نواز کو ہوش سے بیگانہ چھوڑ کر باپ بیٹی کو پاکستان آنا پڑا اور دونوں ایئرپورٹ سے سیدھے جیل چلے گئے اور چند دن بعد کلثوم نواز کا لندن میں انتقال ہو گیا۔ وائے سیاست! کلثوم نواز کے بیٹے حسین اور حسن نواز جنازے میں بھی شریک نہ ہو سکے۔ امتدادِ زمانہ میاں نوازشریف علاج کی غرض سے لندن گئے وہیں ان کی والدہ موجود تھیں۔ ان کا وہیں انتقال ہو گیا تو میاں نوازشریف جنازے کے ساتھ پاکستان نہ آئے۔ ان کے پوتے حسین اور حسن بھی نہ آ سکے۔ ’’بائوجی‘‘ کتاب میں میں نے میاں محمد نوازشریف کی شخصیت، ان کی سیاست، ان کو سیاست میں پیش آنے والی مشکلات، مقدمات، سزائوں کے بارے میں بحث کی۔ اپنی طرف سے میں نے کتاب کی تکمیل تک میاں نوازشریف کی سیاست اور دیگر معاملات کی کہانی مکمل کرنے کی کوشش کی مگر میاں نوازشریف کی زندگی کی کتاب ان کی زندگی میں مکمل ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ نئے سے نیا معاملہ سامنے آتا ہے۔ ایسے ایسے سیکنڈل کہ انسان سرتھام کے رہ جاتا ہے۔ وہ کس طرح فوج کی قربت میں کامیابی کی منزل پر منزل طے کرتے گئے۔ ماڈل ٹائون سے براہ راست اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے اور پھر پاکستان کے تین بار وزیراعظم بنے اور آج اسی فوج کے خلاف آخری حد تک چلے گئے۔ آج براڈشیٹ معاملہ پاکستان کی سیاست پر چھایا ہوا ہے جس میں نوازشریف سے انتقام کی جھلکتا ہے کہ مشرف نے نوازشریف کے احتساب کے لیے براڈشیٹ سے معاہدہ کیا اور کہیں نوازشریف اور مشرف کے مابین گہری ہم آہنگی نظر آتی ہے جس پر دونوں کے مفادات نے یک جہت کر دیا۔ مشرف نے اپنے اقتدار کو مستحکم و طویل کرنا تھا۔ میاں نوازشریف کو تن آسانی اور احتساب سے نجات درکار تھی۔ ’’بائو جی‘‘ نوازشریف کے حوالے سے ایک ریفرنس کتاب ضرور ہے مگر میں نے یہ نوازشریف طبلچی کے طور پر نہیں لکھی۔ غیرجانبداری سے لکھی ہے۔ اس کے پیش لفظ میں لکھ گیا ہے ’’قارئین جس وقت آپ کے ہاتھوں میں یہ کتاب ہوگی تو آپ یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میاں نوازشریف اور شریف برادران سے میرے سیاسی اور نظریاتی اختلافات کسی سے پوشیدہ نہیں تو پھر مجھے یہ کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اس سے پہلے کہ میں اس سوال کا جواب تحریر کروں مجھے تھوڑا سا ماضی کے دریچوں میں آپ کو لے کر چلنا ہوگا۔۔۔‘‘ماضی کے وہ دریچے کتاب پڑھنے سے ہی کھلیں گے۔ اس کتاب میں اور کیا کچھ ہے اس کا اندازہ آپ کو کتاب پڑھ کر ہی ہوگا۔ 264صفحات کی کتاب کی قیمت1240/-روپے ہے اور یہ جمہوری پبلی کیشنز لاہور سے دستیاب ہے۔ قارئین!ایک مستند رائٹر کو لکھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی مگر ایک سیاست کے طالب علم اور لکھاری میں بہت فرق ہوتا ہے۔ سیاسی کارکن کے اپنے جذبات ہوتے ہیں وہ کسی نہ کسی سیاسی دھڑے یا گروپ سے منسلک ہوتا ہے اور لامحالہ اس کے لیے غیرجانبدار رہنا ایک کڑی آزمائش کی طرح ہوتا ہے۔ اسی طرح مجھے یہ کتاب لکھنے کا خیال کیوں آیا یہ وہ سوال ہے جو مجھ سے دنیا بھر میں میرے لاکھوں مداح اور قارئین ’’نوائے وقت‘‘ کریں گے۔میں نے اپنی سیاسی زندگی کی شروعات میں خطرات سے کھیلنا سیکھا ہے یہی وجہ تھی کہ میں نے جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے دور میں بھی انہیں بحیثیت ایک طالب علم رہنما للکارا ،پھر مقدمات کا سامنا بنا، میں نے جلاوطنی اختیار کی اور میرے جنون نے پھر ایک دفعہ مجھے جنرل مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کے سامنے لا کھڑا کیا۔اس دفعہ میں نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے خصوصی ایلچی کی حیثیت سے جنرل مشرف اور اس کے حواریوں کے لیے مشکلات پیدا کیں۔اور اب وہ نوازشریف جن کے دور میں مجھ پر نہ صرف مقدمات بنائے گئے بلکہ میاںمحمد نوازشریف بحیثیت وزیراعظم میرے خلاف مقدمے میں مدعی تھے۔اور پھر سانحہ ماڈل ٹائون کے بعد میں نے علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے پولیٹیکل سیکرٹری کی حیثیت سے شریف برادران کی کھل کر مخالفت کی۔مگر بعدازاں میں نے عظیم تر ملکی مفاد کی خاطر اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف ،علامہ ڈاکٹر طاہر القادری ،عمران خان اور جہانگیرترین کے درمیان پُل کا بھی کردار ادا کیا۔اور یہ تمام واقعات کا اپنی آئندہ آنے والی زیرِ طبع کتاب میں ہوشربا انکشافات کروں گا۔ اس زیرِ بحث کتاب ’’بائوجی‘‘ کا اس مشکل کھڑی میں لکھا جانا اس بات کی ضمانت ہے کہ مطلوب وڑائچ کا قلم چاہے خشک پڑا ہووہ جب بھی کسی پہ ظلم دیکھتا ہے وہ بے قرار ہو کر اس ظلم کے سامنے ڈھال بن جاتا ہے۔میری آج بھی خواہش ہے کہ شریف برادران اور اسٹیبشلمنٹ کے درمیان پُل کا کردار ادا کروںتاکہ شریف برادران کی سیاست پر گرفت کو مثبت انداز میں پاکستان کے مفادات کے لیے استعمال کیا جا سکے اور یہ گوہر ضائع نہ ہوں۔قارئین ’’نوائے وقت‘‘ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد مجھے اپنی مشاورت سے ضرور آگاہ کریں گے۔
Column Name
Search
Select Year
2011
2012
2013
2014
2015
2016
2017
2018
2019
2020
2021
Select Month
January
February
March
April
May
June
July
August
September
October
November
December
Search
Next
Home
Back
Main Menu
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contacts
Published Books
Afkar e Sehar
Benazir Bhutto
Edison
Grand Agenda
Jeenay ka Fun
Sadion Ka Beta
Taliban Aur Aalmi Aman
Jalawattan Leader
Mashriq Maghrib Milaap
Pakistan Ki Kharja Policy
Sohar Wardi sey Wardi Tak
The Great Three
20 Dictators of The 20th Century
Hakayat Roomi
Taliban: The Global Threat