matloobwarraich@yahoo.com -
001-647-6276783
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contact us
Chairman
Punjab National
Party Pakistan
(PNPP)
Senior Columnist Daily Nawa-e-waqt, Lahore.
Chief Editor Daily Peoples Lahore
Political & Military Analyst, Consultant, Lobbyist, Author, Poet
سینیٹ الیکشن اور صدارتی نظام
Dated: 16-Feb-2021
چھانگا مانگا سے مری اور سوات تک ہارس ٹریڈنگ کی کہانیاں بھری ہوئیں ہیں۔ آج نوٹوں کے بیگ تقسیم کرنے اور وصول کرنے والوں کی ویڈیوز چینلز پر نشر ہو رہی ہیں تو یہ کچھ لوگوں کے لیے شاید تعجب خیز ہو مگر یہ انہونی نہیں البتہ ایسی ویڈیوز خال خال ہی سامنے آتی ہیں۔ سینیٹ ہمارے ہاں ایوانِ بالا کا درجہ رکھتا ہے۔ چاروں صوبوں کو اس میں برابر نمائندگی اس لیے دی گئی ہے کہ صوبوں میں آبادی کے حوالے سے قومی اسمبلی میں نمائندگی میں ایک بڑا تفاوت ہے۔ صوبوں کو ایوان بالا میں برابر نمائندگی دے کر اس فرق کو دور کیا گیا ہے۔ سینیٹ کا انتخاب ہر صوبے کے ارکان کرتے ہیں۔ آج نوٹوں کی تقسیم کے جو چرچے ہیں وہ ایک سینیٹرکے طریقہ انتخاب کی وجہ سے ہیں۔ ایک مخصوص تعداد نے اپنے صوبے سے ارکان سینیٹ کا چنائو کرنا ہوتا ہے۔ پارٹی کو اپنی ارکان اسمبلی کی تعداد کے مطابق علم ہوتا ہے کہ وہ کتنے سینیٹر منتخب کرا سکتی ہے اور وہ اتنے ہی امیدوار نامزد کرتی ہے۔ دیانتداری کا تقاضا ہے کہ ارکان اپنی پارٹی کے نامزد امیدوار کو ووٹ دیں مگر بہت بار ایسا ہوا کہ خفیہ رائے دہی کے باعث ووٹ نوٹوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جہاں آزاد امیدواروں کے سینیٹر بننے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ پارلیمان میں سینیٹ کے ذریعے داخل ہونا امیر لوگوں کے لیے مشکل نہیں۔ جہاں ایسے امیر خاندان بھی ہیں جو پوری کی پوری پارٹی کو خریدنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ان کو پارٹیاں فنڈز کے نام پر بڑی بڑی رقمیں لے کر ٹکٹ جاری کر دیتی ہیں اور ایسے لوگ آسانی سے منتخب ہو کر پارلیمان سے اپنی مرضی کی قانون سازی کرا لیتے ہیں۔ اکثر پیسے والے اپنے اور اپنے جیسے امیر کبیر لوگوں کے کاروباروں کو تحفظ کے لیے پارلیمان میں جاتے ہیں اور کئی تو خاندانی سینیٹر ہیں۔ نہ ان کے پاس دولت ختم ہوتی ہے نہ ان کے پارلیمان میں داخل ہونے کے راستے مسدود ہوتے ہیں۔ آج ووٹوں کی خریداری کو روکنے کے لیے اوپن بیلٹ کی بحث جاری ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔ وہاں سے بہتر فیصلہ آئے گا۔ سینیٹ کا الیکشن خفیہ ہو یا اوپن۔ ووٹوں کی خریدوفروخت کا سلسلہ کم تو ہو سکتا ہے مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ووٹ کی فروخت سے وہی فاضل ارکان گریز کریں گے جن کو اپنی عزت اور شہرت کا حساس ہو۔ جہاں وہ لوگ قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہے تھے کہ ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔ ان کی ویڈیو سامنے آئی تو مزید جھوٹ بول رہے ہیں۔ میری سابق پارٹی کے ایک مظفرگڑھ کے جیالے قیوم جتوئی ایم این اے تھے انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ کرپشن کو قانونی تحفظ دیا جائے۔ اس معاشرے میں ووٹ کی خریدوفروخت کیسے رُک سکتی ہے۔ سسٹم میں تبدیلی سے ایسا ممکن ہے۔ امریکہ میں ارکان سینیٹ کا الیکشن بھی براہ راست عوام کرتے ہیں۔ ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے۔ ہر ضلع کو سینیٹرز کے لیے بھی حلقہ بنایا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں کیلیفورنیا رقبے کے لحاظ سے تیسری بڑی ریاست ہے۔ جبکہ الاسکا پہلی بڑی ریاست ہے۔ مگر دونوں ریاستوں میں آبادی کا تناسب دس گناہ سے بھی زیادہ فرق کے ساتھ ہے۔مگر دونوں ریاستوں کو دو ،دو سینیٹر منتخب کرنے کے لیے ملتے ہیں۔دنیا کے اور بھی بیشتر ممالک میں یہاں صدراتی نظام رائج ہے ۔یہاں پر سینیٹرز کو براہ راست منتخب کیا جاتا ہے۔ قارئین پاکستان کا موجودہ آئین 1973ء میں تشکیل پایا اور یہ آئین کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے بلکہ یہ ملک کی سالمیت کو قائم رکھنے کے لیے کچھ رہنما اصولوں کا مجموعہ ہے اور اس میں بوقت ضرورت ترامیم ہوتی رہتی ہیں۔چونکہ گزرتے وقت کے ساتھ اور عوام کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ملکی اندرونی اور بیرونی داخلہ اور خارجہ پالیسی بدلتی دی جاتی ہے۔قیام پاکستان کے وقت مشرقی اور مغربی پاکستان کی کل آبادی 5کروڑ کے قریب تھی۔ آج مشرقی پاکستان کے جدا ہو جانے کے بعد موجودہ مغربی پاکستان کی آبادی 22کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ گلگت بلتستان کے انتظامات اور فاٹا کو خیبرپختونخواہ میں ضم کر دیا گیا ہے۔اور آج بھی کشمیر کا مسئلہ حل طلب ہے۔ مگر انتظامی معاملات کو سنبھالنے کے لیے کشمیر کو بھی ایک صوبے کا درجہ دے دینا چاہیے۔اس طرح موجودہ پاکستان کے چھ صوبے قرار دے کر پاکستان سینیٹ کا نیا انفراسٹکچر تشکیل دینا چاہیے۔اور وفاق کی مضبوطی کے لیے موجودہ پارلیمانی نظام کو یکسر بدل کر صدراتی نظام کو رائج کیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر اس نئے سیٹ اپ میں اگر پاکستان کے کل اضلاع کی تعداد تقریباً120بنتی ہے تو تمام اضلاع کو ایک ایک سینیٹر منتخب کرکے وفاقی سینیٹ میں بھجوانے کا اختیار ہونا چاہیے۔اس طرح ہمارا ملک بے شمار پیچیدگیوں سے چھٹکارا حاصل کر لے گا۔لیکن کچھ لوگ وفاق کے نام پر سسٹم کو بلیک میل کر رہے ہیں اور وہ اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے آئین کے نام پر ایموشنل بلیک ملنگ کر رہے ہیں۔اور اسی وجہ سے پنجاب کو گالی بھی پڑتی ہے۔ سینیٹ کے الیکشن دو مرحلہ میں ہر تین سال بعد ہوتے ہیں۔جس میں چاروں صوبوں کے22،22ارکان صوبائی اسمبلی کو نشستوں کے حساب سے منتخب کیا جاتا ہے جو کہ ایک فرسودہ اور کرپشن کو دعوت دینے والا سسٹم ہے۔آج جو بھی سینیٹر بیس یا پچاس کروڑ روپے دے کر منتخب ہو کر آئے گا تو اپنی انویسٹمنٹ کہاں سے پوری کرے گا؟ قارئین!جو قوم اتفاق رائے سے آج تک ایک کالاباغ ڈیم نہ بنا سکی اس قوم سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ملکی ضرورت کے مطابق آئین میں ضروری ترامیم اور تبدیلیاں لا کر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکے گی۔یہ ایک دیوانے کی بڑھ لگتی ہے۔مگر ہوشمندی سے کام لیں اور اگرہمیں بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ساتھ چلنا ہے تو ہمیں اس فلسفہ کو سمجھنا ہوگا کہ آئین میں ترامیم آئین کی حفاظت کے لیے کی جاتی ہے۔
Column Name
Search
Select Year
2011
2012
2013
2014
2015
2016
2017
2018
2019
2020
2021
Select Month
January
February
March
April
May
June
July
August
September
October
November
December
Search
Next
Home
Back
Main Menu
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contacts
Published Books
Afkar e Sehar
Benazir Bhutto
Edison
Grand Agenda
Jeenay ka Fun
Sadion Ka Beta
Taliban Aur Aalmi Aman
Jalawattan Leader
Mashriq Maghrib Milaap
Pakistan Ki Kharja Policy
Sohar Wardi sey Wardi Tak
The Great Three
20 Dictators of The 20th Century
Hakayat Roomi
Taliban: The Global Threat