matloobwarraich@yahoo.com -
001-647-6276783
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contact us
Chairman
Punjab National
Party Pakistan
(PNPP)
Senior Columnist Daily Nawa-e-waqt, Lahore.
Chief Editor Daily Peoples Lahore
Political & Military Analyst, Consultant, Lobbyist, Author, Poet
کیا یہ صدارتی نظام کے لیے رچایا گیا ڈراماتھا؟
Dated: 09-Mar-2021
پاکستان کی سیاست یک رنگی نہیں ہمہ رنگی ہے اور اسرارورموز کے دبیز پردوں میں بھی لپٹی ہوئی ہے۔ سامنے کچھ ہو رہا ہوتا ہے پس منظر میں کچھ اور چل رہا ہوتا ہے۔ پس پردہ چلنے والی کہانیاں کبھی ہوش گم کر دیتی ہیں۔ اندر کیا ہو رہا ہوتا ہے باہرکیا بتایا جاتا ہے۔ اس میں کبھی تو زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ کبھی تو حریفوں کے مابین طے ہونے والے معاملات مدتوں بعد سامنے آتے ہیں اور کبھی تو خفیہ ہی رہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا۔ 2018ء میں عمران خان کو 176جبکہ اب انہیں 178ووٹ ملے۔ فیصل واوڈا قومی اسمبلی میں سینیٹ کا ووٹ کاسٹ کرکے مستعفی ہو گئے تھے۔ سپیکر کا ووٹ بھی عمران خان کو ہی پڑنا تھا یوں آج حکومت اور اس کے اتحادیوں کی طاقت 180ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کل تک کی ساری ایکسرسائز ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت ہوئی تو کئی لوگ اس پر شاید متفق نہ ہوں مگر شواہد کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ کچھ لوگوں کو غلط فہمی یا خوش گمانی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت کی مدد سے دستبردار ہو گئی یہ تو خام خیالی ہے۔ حکومت اور مقتدر حلقے ایک پیچ پر تھے اور ہیں۔ مسلم لیگ ن کے بیانیہ کو ذرا ذہن میں لائیں فوج کے خلاف الزام، دشنام اور بہتان لگائے گئے۔ جس کی قطعی طور پر پذیرائی نہ ہوئی۔ نواز لیگ کے اس عمل بلکہ احمقانہ بیانیے نے حکومت اور فوج کو مزید قریب کر دیا۔ اب ذرا پیپلزپارٹی کے بیانیے کی بات کریں تو وہ حکومت کے سخت خلاف جبکہ اسیبلشمنٹ کی حمایت میں ہے۔ جب نواز لیگ اسٹیبلشمنٹ کے حق میں بات کرکے نواز شریف کو جیل سے ہسپتال اور ہسپتال سے لندن لے گئی تھی وہاں جا کر میاں صاحب نے اشتہاری ہونے سے بچائو کے لیے پھر انہی پر زور دیا تو دال نہ گلنے پر ان حلقوں کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا جنہوں نے سیاست میں میاں صاحب کو داخل کرکے ان کے اتالیق کے فرائض ادا کیے تھے۔ اب ذرا سینیٹ کے قومی اسمبلی میں ہونے والے الیکشن کی بات کریں تو وہاں سے پی پی پی کے امیدوار کو 164ووٹ ملے۔ تحریک انصاف کی خاتون امیدوار کو 174ووٹ ملے۔ جہاں سے پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے ایک ایک سیٹ جیت لی جبکہ تحریک انصاف کی خاتون امیدوار کے مقابلے میں مسلم لیگ ن کی امیدوار ہار گئیں۔ عبدالحفیظ شیخ کو یوسف رضا گیلانی نے شکست دی۔ یہ بھی طے شدہ پلاننگ تھی جس کا مقصد وزیراعظم کے لیے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا جواز پیدا کرنا تھا۔ جو انہوں نے حاصل کر لیا۔ اس سارے عمل میں مسلم لیگ ن ہاری ہی نہیں چاروں شانے چِت ہوئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ حکومت اور پیپلزپارٹی ایک پیچ پر تھے اور ہیں۔ ہاتھ اگر ہوا ہے تو مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوا ہے ۔قارئین!محترم مریم نوازشریف چاہے جتنی بڑی سیاسی بساط پر اکیلے کھیلنے کا دعوی کرے مگر یہ حقیقت ہے کہ میاں نوازشریف کے بغیر وہ اپنے اردگرد کے ساتھیوں پر آنکھیں بند کرکے اعتبار نہیں کر سکتیں۔کیا یہ بھی کھیل کا حصہ نہیں تھا کہ عین سینیٹ کے الیکشن سے صرف تین دن پہلے حمزہ شہباز کی ضمانت پر رہائی اور میاں شہباز شریف کو قومی اسمبلی کے اجلاس اور یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے کے لیے پروڈکشن آرڈر پر رہا کیا گیا ۔محترمہ مریم نوازشریف اتنی آسان سی بات سمجھنے میں سے بھی عاری کیوں ہیں کہ اتنے سارے اتفاقات حقیقی زندگی میں ممکن نہیں اور یہ سب پیپلزپارٹی اورپی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سیم ایک پیج پر لانے کے لیے ڈرامہ رچایا گیا تھا۔ جس میں آصف علی زرداری اور ان کے سپوت بلاول زرداری نے بھرپور ادا کاری کی اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ بنے۔ اگر پی ڈی ایم کی با ت کی جائے تو وہ یوسف رضا گیلانی کی جیت پر جس طرح ہوا میں اڑا رہی تھی وہ وزیراعظم عمران خان کے اعتماد کے ووٹ کے حصول کے موقع پر منتشر نظر آئی۔ جن کے ساتھ ہاتھ ہوا تھا پارلیمنٹ کے باہر وہی پہنچے اور دھینگا مشتی کا حصہ بن گئے۔ ایک پارٹی کے لیڈروں کا دوسری پارٹی کے کارکنوں کاکبھی بھی آمنا سامنا نہیں ہوا مگر یہ تماشا بھی ڈی چوک میں لگا اور دنیا نے دیکھا۔ جہاں صرف ن لیگ کے لیڈر آئے۔ پی پی ایک پیج پر ہونے کا حق ادا کرتی رہی۔ اس سارے منظرنامے کا مقصد ملک میں صدارتی نظام کے لیے راہ ہموار کرنا ہے جو بہت حد تک ہو گئی ہے۔ سینیٹ میں پی ٹی آئی سب سے بڑی جماعت ہے قوی امکان ہے کہ وہاں پی ٹی آئی اپنا چیئرمین منتخب کرا لے گی اگر نہ بھی کرا سکی تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ پیپلزپارٹی کا چیئرمین بالفرض آ جاتا ہے تو وہ بھی صدارتی نظام کے لیے اپنا کردار ادا کرتا نظر آئے گا۔ اس سارے منظرنامے میں مسلم لیگ ن راندۂ درگاہ نظر آتی ہے ۔ یہ مقبولیت کی بلندیوں سے گرکر زمین کی پستیوں میں گئی ہے تو اس کی وجہ پاک فوج کے خلاف اس کا ہرزہ سرائی اور زہر اگلنے کا بیانیہ ہے۔ یہاں ہم ایک اور پیشرفت سے آگاہ کریں کہ مریم نوازشریف نے سینیٹ الیکشن میں ٹکٹ کا لالچ دے کر ووٹ حاصل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ اس پر وہ تاحیات الیکشن لڑنے اور پارٹی کے کسی بھی عہدے کے لیے نااہل ہو سکتی ہیں۔ قارئین! چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے فوراً بعد پاکستان کی سیاست میں چنداہم کام سٹپ بائی سٹپ انجام پائیں گے ۔چیئرمین سینیٹ کا انتخاب پی ٹی آئی جیت جائے گی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار صاحب وزیراعظم عمران خان کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے مطابق اپنی مدت پوری کر چکے ہیں ان کی جگہ مسلم لیگ ق سے مشاورت کے بعد نئے وزیراعلیٰ کا نام سامنے لایا جائے گا۔پی ٹی آئی قومی اسمبلی سے اگلا بجٹ آسانی سے منظور کروانے میں کامیاب ہو جائے گی۔اس سال اکتوبر تک ملک میں صدارتی نظام کے لیے مطلوبہ ترامیم منظور کروا لی جائیں گی۔جس سے اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے مشترکہ مفادات کو تقویت ملے گی۔
Column Name
Search
Select Year
2011
2012
2013
2014
2015
2016
2017
2018
2019
2020
2021
Select Month
January
February
March
April
May
June
July
August
September
October
November
December
Search
Next
Home
Back
Main Menu
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contacts
Published Books
Afkar e Sehar
Benazir Bhutto
Edison
Grand Agenda
Jeenay ka Fun
Sadion Ka Beta
Taliban Aur Aalmi Aman
Jalawattan Leader
Mashriq Maghrib Milaap
Pakistan Ki Kharja Policy
Sohar Wardi sey Wardi Tak
The Great Three
20 Dictators of The 20th Century
Hakayat Roomi
Taliban: The Global Threat