matloobwarraich@yahoo.com -
001-647-6276783
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contact us
Chairman
Punjab National
Party Pakistan
(PNPP)
Senior Columnist Daily Nawa-e-waqt, Lahore.
Chief Editor Daily Peoples Lahore
Political & Military Analyst, Consultant, Lobbyist, Author, Poet
کیا پاکستان پہ اسرائیل کو تسلیم کرنا کا دبائو ہے؟
Dated: 08-Dec-2020
عالمی حالات کیا رخ اختیار کر رہے ہیں اس کا اندازہ گردوپیش کا جائزہ لینے سے ہو جاتا ہے۔ نائیجیریا میں او آئی سی کا اجلاس ہو رہا تھا اس دوران بھارتی وزیر خارجہ بحرین اور متحدہ عرب امارات کے دور ے پر تھے۔ او آئی سی کے نائیجیریا میں وزرائے خارجہ کے اجلاس کے دوران کشمیر سے متعلق قرار داد پاکستان کے موقف کے مطابق منظور کی گئی۔ اگر یہ چند ممالک کی تنظیم ہوتی تو یہ قرارداد شاید اس طرح سے منظور نہ ہو پاتی۔ بھارت نے اجلاس سے پہلے ہی واویلا شروع کر دیا تھا کہ کشمیر ایشو او آئی سی کے ایجنڈے پر نہیں ہے۔ بھارت کی طرف سے کسی کے ایما یا کسی کے امید دلانے پر بھی ایسے بیانات سامنے آ سکتے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے بہتر سفارتکاری کامظاہرہ کیا گیا۔ بھارت کے لیے یہ بڑی ہزیمت تھی۔ وہ چپ ہو کے نہیں بیٹھ سکتا۔ شیطان کی طرح اس کاذہن پاکستان کے خلاف سازشیں تراشتا رہتا ہے۔ وہ پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے ہر حد عبور کر تا ہے۔ وہ مسلم ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم اور کسی حد تک کامیاب بھی ہے۔ مودی سعودی عرب اور امارات کے دورے کرکے بڑے بڑے اعزازات حاصل کر چکا ہے۔ اس کا آرمی چیف جنرل مکنڈنروانے چار روزہ دورے پر سعودی عرب اور متحدہ امارات پہنچ چکا ہے۔ کس لیے؟ اس کا اندازہ بھارت میں سعودی سفیر اوصاف سعید کے بیانات سے ہوتا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ سعودی عرب ہندوستان دفاع اور سیکورٹی کے معاملات میں قریب آ رہے ہیں۔ ادھر سعودی عرب میں اسلامی ممالک کے دفاعی اتحاد کے کمانڈر جنرل راحیل شریف ہیں۔پاکستان کے لیے حجاز مقدس کی وجہ سے سعودی عرب عقیدتوں کا مرکز ہے۔ دفاعی معاملات میں پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب کا ساتھ دیا۔ دیگر عرب ممالک کے ساتھ بھی ایسا ہی تعاون جاری ہے۔ ان ممالک کا پاکستان سے زیادہ پاکستان کے دشمن کی طرف جھکائو حیران کن ہے۔ذرا سرسری سا جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت برادر ہڈ کی قلعی کھول دیتی ہے۔ یورپ امریکہ اور کینیڈا جیسے ممالک میں تارکین وطن کو وہاں چند سال کام کرنے کی صورت میں مستقل شہریت دے دی جاتی ہے۔ ان شہریوں کو وہی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو ملک کے صدر اور وزیراعظم کو حاصل ہیں۔ تعلیم سب کے لیے فری، صحت کی سہولتیں فری، ملازمت کا تحفظ اور پنشن سب مقامی لوگوں کی طرح بیرون سے آنے والوں کے لیے بھی ہے۔ ذرا ان ممالک کا جائزہ لیں جن کو کلمے کی بنیاد پر بھائی بھائی کہا گیا اور اس میں کسی شک کی بھی گنجائش نہیں ہے مگر عمل اس کے برعکس ہے۔ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچنے پر غیرملکیوں کو ان کے ملک بھجوا دیا جاتا ہے۔ کوئی پنشن نہیں۔ وہاں موجودگی کے دوران صحت اور تعلیم حکومت کے نہیں اپنے ذمہ ہے۔ شہریت کا باب ہی بند ہے۔ اور اب پاکستانیوں کو نکالنے کی پالیسی پر عمل جاری ہے۔ ان جگہ پر کون آئیں گے ہندوستان سے لوگ آئیں گے۔ کیا وہ اتنے ہی وفادار ہوں گے اور ان کے نزدیک حجاز مقدس عقیدتوں کی سرزمین ہو گی؟؟۔ ہم اگر قومی و ملکی سطح کی بات کریں تو اسرائیل کے ساتھ ہماراہ براہ راست کیا تنازع ہے، کوئی نہیں ہے۔ ہمارے تو پاسپورٹ پر بھی درج ہے کہ اس پر اسرائیل نہیں جایا سکتا ہم تو اس حد تک چلے گئے ہیں۔ ادھر عرب ممالک فلسطینیوں کے ساتھ کتنے مخلص ہیں اس کا اندازہ ان کے دُہرے معیار سے ہو سکتا ہے۔ جس کا اظہار اسرائیلی وزیراعظم نے ایک ملاقات کے دوران کیا تھا۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے نوازشریف صاحب کے دوسرے دور میں جلاوطنی کے بعد اس وقت کی اسرائیلی گورنمنٹ اور خصوصاً اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز کے ساتھ مذاکرات کے لیے نامزد کیا اور ان ملاقاتوں کے نتیجے میں، میں پاکستان کے عوام کے جذبات اور علاقائی صورت حال اسرائیلی قیادت تک پہنچانے میں کامیاب رہا، میں نے اپنی پہلی ملاقات میںمسٹر شمعون پیریز سے یہ پوچھا کہ کیا فلسطین کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دے دیا جائے گا؟ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے برجستہ جواب دیا کہ ایک آزاد اور ڈیموکریٹک فلسطین ہماری شدید تر خواہش ہے مگر خود فلسطین کے اطراف مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اور عر ب ریاستیں یہ نہیں چاہتیں کہ ایک آزاد اور خودمختار جمہوری فلسطین کا قیام عمل میں آئے کیونکہ تقریباً تمام عرب ممالک اور ریاستوں میں یا تو ڈکٹیٹر شپ ہے یا بادشاہت۔ اس لیے فلسطین کے اطراف عرب قیادت خوفزدہ ہے کہ ایک آزاد اور خودمختار فلسطین کے قیام کی صورت میں اس کے جمہوری اثرات ان ریاستوں کے عوام اور کلچر پر مرتب ہوں گے۔ یاد رہے فلسطین کے عظیم رہنما اور الفتح مذاحمتی تحریک کے بانی(مرحوم) یاسرعرفات کے بھارت کے ساتھ بہت قریبی اور نجی تعلقات تھے۔ بھارتی وزیراعظم مسز اندراگاندھی اوریاسرعرفات بہن بھائی بنے ہوئے تھے ۔ کشمیر کاز پر فلسطینی قیادت کی مجرمانہ خاموشی اور بھارت کی طرف داری ہمیشہ پاکستانی سفارتی حلقوں میں باعثِ تعجب رہی ۔ خود شہید بی بی بے نظیر بھٹو صاحبہ اکثر اپنی گفتگو میں کہا کرتی تھیں کہ یاسرعرفات اور صدام حسین کی طرف سے سفارتی محاذ پر پاکستان کی مخالفت ایک اچنبھے کی بات ہے۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ فلسطینی عوام سے اظہارِ یک جہتی کے لیے پاکستان میں یومِ القدس منایا جاتا ہے جبکہ لاکھوں کشمیریوں کی شہادت پر فلسطینی اور عراقی سیاسی قیادتوں کے منہ سے اُف تک نہیں نکلتی۔کیا اب ہمارے لیے اپنے بل بوتے پر پالیسیاں بنانے کا وقت نہیں آ گیا۔سعودی عرب کے علاوہ تقریبا تمام عرب ممالک نے اسرائیل کو قانونی اور سفارتی طور پر تسلیم کر لیا ہے اور سعودی ولی عہد اور اسرائیلی پرائم منسٹر نیتن یاہوکے درمیان ملاقاتیں بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔بال اب پاکستان کی کورٹ میں ہے اور اس کا فیصلہ بھی پاکستانی عوام کو کرنا ہے کہ جب عرب ممالک نے اسرائیل سے سفارتی صلح کر لی ہے اور فلسطین کی حکومت بھی اسرائیل سے رفاعی امداد کے سلسلے میں حال ہی میں بجٹ حاصل کر چکی ہے تو پھر پاکستان کو بھی ایک واضح موقف اپنا ہوگا۔ہاں یا ناں عوام کے فیصلے پر ہو نی چاہیے اور اس سلسلے میں ایک ریفرنڈم بھی کرنا پڑے تو عوامی رائے کا احترام کرنا چاہیے۔
Column Name
Search
Select Year
2011
2012
2013
2014
2015
2016
2017
2018
2019
2020
2021
Select Month
January
February
March
April
May
June
July
August
September
October
November
December
Search
Next
Home
Back
Main Menu
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contacts
Published Books
Afkar e Sehar
Benazir Bhutto
Edison
Grand Agenda
Jeenay ka Fun
Sadion Ka Beta
Taliban Aur Aalmi Aman
Jalawattan Leader
Mashriq Maghrib Milaap
Pakistan Ki Kharja Policy
Sohar Wardi sey Wardi Tak
The Great Three
20 Dictators of The 20th Century
Hakayat Roomi
Taliban: The Global Threat