matloobwarraich@yahoo.com -
001-647-6276783
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contact us
Chairman
Punjab National
Party Pakistan
(PNPP)
Senior Columnist Daily Nawa-e-waqt, Lahore.
Chief Editor Daily Peoples Lahore
Political & Military Analyst, Consultant, Lobbyist, Author, Poet
کیا آپ کڑوا سچ سننا پسند کریں گے؟
Dated: 19-Jan-2021
پاکستان وسائل سے بھرپور ملک ہے۔ اس کے باوجود بدترین پسماندگی کا شکا رہے۔ صاحبِ ثروت لوگوں کی بھی کمی نہیں مگر ان کی تعداد بہت کم ہے۔ عسرت و غربت میں زندگی گزارنے والے 22کروڑ کی آبادی میں کروڑوں ہیں۔ خطِ غربت کے نیچے زندگی کی گاڑی کو کھینچنے والے چالیس فیصد ہیں۔ شیشے کے محلات میں بیٹھے بڑے شہروں کے لوگوں کو اپنے ہی شہر کی کچی آبادیوں کے باسیوں کی طرزِ زندگی کا اندازہ نہیں ہو سکتا اور سندھ ،پنجاب ،بلوچستان ، کے پی کے اور کشمیر کے پسماندہ علاقوں کے بہت سے لوگوں کی زندگی شہروں کی کچی آبادیوں کے رہنے والوں سے کئی درجے ابتر ہے۔ پاکستاں میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں گیس، بجلی تو کجا ٹائلٹ تک کا نشان اور گمان نہیں ہے۔ ایک طرف عالی شان محلات، فارم ہائوس ، کوٹھیاں،بنگلے، دوسری طرف کوٹھڑیاں، کٹیاں اور کہیں وہ بھی نہیں اور پھر کہیں انواع و اقسام کے کھانے ،نعمتیں نہ صرف انسانوں بلکہ بڑے لوگوں کے جانوروں کے لیے بھی۔ کتوں اور گھوڑوں کے موسم کی مناسبت سے بہترین عمارتیں اور خوراکیں اس ملک میں جس میں ایک بڑی آبادی نانِ جویں پر گزارہ کرتی ہے۔ یہ سب وسائل کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے ہوتا ہے۔ پاکستان میں غربت کے خاتمے کے لیے بہت سے حکمرانوں نے کوشش کی۔ ان میں ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کا نام سرِ فہرست ہے۔ ان کے بعد آنے والوں نے بھی غریبوں کے بارے میں ضرور سوچا مگر اکثر نے اپنا کمیشن الگ کر لیا۔یہ سردست ہمارا موضوع نہیں ہے۔ پاکستان سے بہت سے لوگوں کا روزگار کے لیے بیرون ممالک جانے کا وسیلہ بنا۔ گئے تو روزگار کے لیے مگر وہاں ایسا دل لگا کہ وہیں کے شہری ہو گئے۔ وطن کو بہرحال نہیں بھولے سال بہ سال آتے ہیں اور شاید کئی نہ ہی آتے ہوں مگر وصیت ان کی بھی مادرِ وطن میں دفن ہونے کی ہوتی ہے۔ بیرون ملک گئے پاکستان ہر ماہ ایک خطیر رقم بھجواتے ہیں جس سے پاکستان کی معیشت کی صورت حال بہتر رہتی ہے مگر پاکستان کی معیشت کی مضبوطی کا سوچ کر کتنے لوگ ترسیل زر کرتے ہیں اتنے ہی جتنوں نے ڈیم فنڈ میں پیسے دیئے۔ حقیقت یہی ہے کہ سب اپنے گھر اور خاندان والوں کو پیسے بھیجتے ہیں۔ یہ بھی بہرحال قوم و وطن کی خدمت ہے۔ دوسرے ممالک گئے لوگوں کی زندگی میں تبدیلی آ جاتی ہے۔ ان کے خاندان سے لوگوں کا طرزِ حیات بہتر ہو جاتا ہے۔ انہیں باقی اردگر کے لوگ اور دور کے رشتے دار رشک اور کئی حسد سے دیکھتے ہیں۔ باہر سے آنے والے لوگ عموماً لوٹتے ہوئے بڑے سوٹ کیس اٹھائے ہوتے ہیں۔ اپنوں کے لیے تحائف لاتے ہیں جتنے دن ملک میں رہتے ہیں کھل کر خرچہ کرتے ہیں۔ دکان ،مکان ،زمین ، جائیداد خریدنے کے وسائل سے مالا مال ہو چکے ہوتے ہیں۔ عام خریداری کے لیے ریٹ بھی نہیں پوچھتے۔ میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جوپانچ سے پندرہ لاکھ روپیہ تک مہینہ میں خرچ کر دیتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے ان کی زندگی شاہانہ ہوتی ہے۔ ایسی زندگی کا تصور ہر نوجوان کو باہر جانے پر اکساتا ہے۔ کئی باہر چلے بھی جاتے ہیں کئی اس کوشش میں فراڈ کا شکار ہو کر تہی دست اور قلاش ہو جاتے ہیں۔ باقی زندگی گھٹتے اور کڑھتے ہوئے گزارتے ہیں یا جرائم کی راہ اختیار کر لیتے ہیں۔ باہر جانے کے شوق میں کئی بے موت بھی مارے جاتے ہیں۔ مفاد پرست ایجنٹ سمندری اور زمینی راستوں سے غیر قانونی طور پر لوگوں کو سمگل کرتے ہوئے ان کی جان کے درپہ ٹھہرتے ہیں۔ ہمارے چھوٹے سے قصبے میں ہر ماہ ایسے نوجوانوں کی ایک دو میتیں آ رہی ہوتی ہیں۔ باہر جائیں ضرور جائیں مگر چوروں ،فراڈیوں، جعل سازوں سے بچ کر رہیں۔ایسے پوری سے آدھی اچھی جو عزت سے ملک میں مل جائے۔ جان ہے توجہان ہے۔ باہر جا کر روزگار کما کر گھر کے حالات سدھارنے کی حوصلہ افزائی یقینا ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ خرافات سے بچنا بھی ضروری ہے۔ مجھے جہاں بھارت کی مثال یا د آ رہی ہے۔ وہاں کا شہری دہری شہریت اختیار کرتا ہے تو اسے بھارتی پاسپورٹ سرنڈر کرنا پڑتا ہے۔ اسے ووٹ کا حق نہیں رہتاوہ جائیداد نہیں خرید سکتا۔ میں نے جہاں کینیڈا میں دیکھا اس قانون کے باعث بیرون ملک آنے والے زیادہ تر لوگ دہری شہریت میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ گذشتہ سال صرف بھارت سے 85ہزار سٹوڈنٹس کینیڈا آئے ان میں سے میری بہت سے سٹوڈنٹس سے ملاقات ہوئی مجھے ایک بھی ایسا نظر نہیں آیا جو واپس نہ جانا چاہتا ہو ہمارے رویے اس کے برعکس ہیں۔ تعلیم کے لیے جانے والے پہلے روزگار تلاش کرتے ہیں پھر سنگل شہریت کی سر توڑ کوششیں۔ البتہ ایسے بھی ہیں جو باہر سے تعلیم حاصل کرکے پاکستان جاتے ہیں۔ ان میں اکثر کے والدین نے دونمبری سے دولت بنا رکھی ہوتی ہے۔ ایسے لوگ ہی ماہانہ کے 20لاکھ روپے کے اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ بہرحال بیرون ممالک آئے لوگ پاکستان میں کئی مسائل کی وجہ بھی بنتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان پر پابندی لگا دی جائے۔ پاکستان وسائل سے معمور ملک ہے وسائل کی منصفانہ اور مساوی تقسیم ہی اس کا بہترین حل ہے۔ انڈسٹریلائزیشن کی ضرورت ہے جس کا فروغ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں بہت گنجائش ہے۔ آج فیکٹریوں میں مزدور کم پڑ رہے ہیں۔ ذرا ہسپتال کی طرف دیکھیں ہم نے اس شعبے کو بری طرح سے نظرانداز کیا ہے۔ بھارت میں یہ شعبہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ سیاحت کو لے لیں، تعلیم کو لے لیں۔پاکستان میں مواقع کی وسائل کی طرح بھرمار ہے۔ بروئے کار لایا جائے تو جو آبادی آج دردِ سر نظر آتی ہے وہ نعمت اور غنیمت نظر آئے گی۔ قارئین!آج سچ کی تلاش میں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ ہماری قوم انتہائی درجے کی کنفیوژڈقوم ہے ۔دوسری اقوام کے شانہ بشانہ ترقی کرنی ہے تو ہمیں دو چیزیوں پر توجہ دینی ہو گی۔ایک اس ذہنی منتشر قوم کو کنفیوژن سے نکالنا ہوگااور دوسرا قوم کو ہیپوکریسی (منافقت)چھوڑنا ہوگی۔اور جب ہماری قوم نے ان دو خامیوں کی اصلاح کر لی تو یقین ہمیں سُپر قوم بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
Column Name
Search
Select Year
2011
2012
2013
2014
2015
2016
2017
2018
2019
2020
2021
Select Month
January
February
March
April
May
June
July
August
September
October
November
December
Search
Next
Home
Back
Main Menu
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contacts
Published Books
Afkar e Sehar
Benazir Bhutto
Edison
Grand Agenda
Jeenay ka Fun
Sadion Ka Beta
Taliban Aur Aalmi Aman
Jalawattan Leader
Mashriq Maghrib Milaap
Pakistan Ki Kharja Policy
Sohar Wardi sey Wardi Tak
The Great Three
20 Dictators of The 20th Century
Hakayat Roomi
Taliban: The Global Threat