matloobwarraich@yahoo.com -
001-647-6276783
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contact us
Chairman
Punjab National
Party Pakistan
(PNPP)
Senior Columnist Daily Nawa-e-waqt, Lahore.
Chief Editor Daily Peoples Lahore
Political & Military Analyst, Consultant, Lobbyist, Author, Poet
کیا علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کا فیصلہ درست تھا؟
Dated: 16-Mar-2021
علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے سیاست سے کنارہ کشی کے اعلان سے انہوں نے عمران خان سے سیاسی بدلہ لے لیا۔ سانحہ ماڈل ٹائون پر عمران خان ہچکچاہٹ اور دوگلی پالیسی کے باعث دو سیاسی کزنوں میں اشتراک کو دھچکا پہنچا۔آج کے حالات میں آگر سانحہ ماڈل ٹائون کا کیس عدالتوں میں چل رہا ہوتا توشریف برادران سزا پانے کے قریب یا انجام کے قریب ہوتے اور ایسی صورت میں عمران خان کو سیاسی طور پر بوم مل جاتا اور خاص اس امر کو ناکام کرنے کے لیے وزیراعظم کو مس گائیڈ کیا گیا مگر اس مقام پر درویش صفت مذہبی مبلغ نے کمال خوبصورتی سے سیاست سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرکے سیاست کے ایوانوں میں بھونچال برپا کر دیا عمران خان کو مذہبی مفکر کی یہ چال سمجھنے میں ایک پورا سال لگا۔پس یہ ثابت ہوا کہ نواز شریف اور شہباز شریف بمعہ مریم نواز اور حمزہ شہباز عمران خان کوپچھاڑنے میں اس لیے کامیاب ہوئے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کو یہ تاثر دینے میں کامیاب ہو گئے کہ عمران خان کے پاس اب اسٹریٹ پاور جیسی قوت رکھنے والی عوامی تحریک اور منہاج القران ساتھ نہیں ہے اس دوران ججز اور عدلیہ کے ایوانوں نے اس تبدیلی کو بھانپ لیا اور اپنا جھکائو پھر سے موجودہ رجیم کے خلاف موڑ لیا۔قارئین سیاسی تجزیہ نگاری ایک مشکل سائنس ہے ڈاکٹر طاہر القادری کو انڈر ایسٹی میٹ کرنا کپتان کی پہلی فاش غلطی تھی دراصل کپتان کے اردگرد مانگے تانگے کے کھلاڑی جمع ہونا شروع ہوگئے تو ملکی اسٹیبلشمنٹ بھی چکمہ کھاگئی کہ یہ اکیلا گھوڑا شاید میدان مار لے گا۔ ایوان اقتدار اور سیاسی بھول بھلییوں میں اکیلے پن کو محسوس کرنے کے بعد پی ٹی آئی نے جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو گھبراہٹ میں یہ بھول گئے کہ اب ان کے ساتھ منہاجین نہیں کھڑے اور یہ بات آج بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کا اتحاد برقرار رہتا توآئیندہ کم ازکم دس سال تک عمرانی اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔ اقتدار کے نشے میں دھت کپتان کو یہ احساس ہی نہیں رہا کہ پاکستان کی پچھلی بہتر سالہ تاریخ میں جماعت اسلامی کے بعداگر کسی کے پاس اسٹریٹ پاور ہے تو وہ منہاج القران کی تنظیم کے پاس ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ علامہ طاہرالقادری کا سیاست سے سبکدوشی کا اعلان کس تناظر میں تھا؟ دراصل 2018 کے الیکشن نتائج کے بعد علامہ طاہرالقادری صاحب کے لیے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے جنرل ریٹائرر احیل شریف اور جنرل رضوان کی موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل ہو چکی تھی۔ جی ایچ کیو میں جوپک رہا تھاوہ ڈاکٹر طاہرالقادری ایک ناکام آپریشن( دھرنا پلس) میں چکھ چکے تھے اور سمجھتے کہ دو امیدواروں کے درمیان بیچاری دلہن کاحشر کیا ہوگا اور بالاآخر وہی ہوا جو ڈاکٹر طاہرالقادری کی زیرک نظروں نے بھانپ لیا تھا اور منہاج القران کی قوت اور طاقت کو کسی بہتر موقع کے انتظار میں بچا لیا یہی وجہ ہے گزشتہ روز پاکستان عوامی تحریک کی مرکزی شوری کا پہلا اجلاس بلایاگیا اور بہت جلد سانحہ ماڈل ٹائون کے کیسز شفاف طریقے سے شروع کرنے کی تحریک ملکی سطح پر شروع کی جائے گی مگر اس بار سیاسی کزنز کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیاجائے گا کیوںکہ سیاست میں دوبارہ غلطی کی گنجائش موجود نہیں۔ قارئین جس طرح گذشتہ روز سینیٹ کے انتخابات اختتام پذیر ہوئے ہیں اور جس طرح ان انتخابات کے دوران عوامی نمائندوں نے اپنی تذلیل کا بندوبست خود کیا ہے۔ اور جس طرح ایوان بالا کو ایک بکرامنڈی کی طرح پیش کیا گیا ہے کیا ایسے عوامل کا یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ پاکستان کے اعلیٰ ترین ایوان میں جو اوپن ہارس ٹریڈنگ ہوئی وہ اس قوم کا مزاج ہے ۔ہمیں دنیا کے دو سو سے زائد ممالک کے پارلیمنٹرین نظام کو یہ پیغام دیا ہے کہ جس طرح پاکستان کے ایوان بالا کے اراکین بِکے یا انہیں خریدا گیا اور اس ٹریڈنگ منڈی میں جس طرح سیاستدانوں، بیوروکریسی ،سرمایہ داروں اور اسٹیبلشمنٹ نے بھرپور حصہ لیا اور یہ سب ہمارے سماج کے ماتھے پر ایک کلنک کا ٹیکا ہے ۔ ایک طرف ملک میں کرونا وائرس کے متعلق عوام کا مزاج بالکل مختلف ہے اور حکومتی ایس او پیز کی پرواہ نہ کرنا اس بات کا غماز ہے کہ بائیس کروڑ عوام کو حکومتی وعدوں اور حکومتی اقدامات پر یقین نہیں اور وہ حکومت کی طرف سے بنائے گئے ایس اوپیز کو نہیں مانتے۔یہی وجہ ہے کہ آج سینیٹ الیکشن کے نتائج آنے کے بعد حکومتی واویلا لوگوں کو یہ باور کرانے میں ناکام رہا کہ پاکستان سنگین ترین نتائج بھگتنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔اس وقت حالت یہ ہے کہ ہم پچھلے ایک سال سے عوام کو یہ باور کراتے رہے کہ پوری دنیا میں کرونا خطرناک نتائج دے رہا ہے مگر پاکستان کے حالات عمران خان کی گڈ گورنس کے نتیجے میں اچھے ہیںمگر جب امریکہ سمیت پوری دنیا کرونا کی وبا ختم ہونے کی حتمی تاریخیں دے رہی ہے عین اسی وقت حکومت پاکستان بائیس کروڑ عوام کو کرونا کی شدید لہر آنے کی نوید سنا رہی ہے۔ دراصل اس وبا کے دوران پاکستان کی وزارتِ صحت ذہنی اور عملی طور پر تیار نہیں تھی۔یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں کرونا کے چند لاکھ ٹیسٹ ہوئے اور کم ٹیسٹوں کی بنیاد پر یہ اخذ کر لیا گیا کہ پاکستان میں کرونا بھارت اور دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اس طرح بلی کو دیکھ کر کبوتر نے آنکھیں بند کرنے کی روش برقرار رکھی۔ قارئین پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دوراہے پر کھڑا ہے۔ اور یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر کھڑے ہیں اور نہ ہی اپوزیشن اور اسٹبیلشمنٹ ایک پیج پر کھڑے ہیں۔ ملک بھر میں عجیب کشمکش اور سیاسی و سماجی افراتفری کا عالم ہے اور ایسے میں اگر وطن عزیز کو بائیس کروڑ عوام نے سہارا نہ دیا تو ہماری نسلیں خدانخواستہ اس کا عبرت ناک انجام بھگتیں گی۔
Column Name
Search
Select Year
2011
2012
2013
2014
2015
2016
2017
2018
2019
2020
2021
Select Month
January
February
March
April
May
June
July
August
September
October
November
December
Search
Next
Home
Back
Main Menu
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contacts
Published Books
Afkar e Sehar
Benazir Bhutto
Edison
Grand Agenda
Jeenay ka Fun
Sadion Ka Beta
Taliban Aur Aalmi Aman
Jalawattan Leader
Mashriq Maghrib Milaap
Pakistan Ki Kharja Policy
Sohar Wardi sey Wardi Tak
The Great Three
20 Dictators of The 20th Century
Hakayat Roomi
Taliban: The Global Threat