matloobwarraich@yahoo.com -
001-647-6276783
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contact us
Chairman
Punjab National
Party Pakistan
(PNPP)
Senior Columnist Daily Nawa-e-waqt, Lahore.
Chief Editor Daily Peoples Lahore
Political & Military Analyst, Consultant, Lobbyist, Author, Poet
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی قیادت آمنے سامنے
Dated: 30-Mar-2021
میں نے اپنے ایک کالم میں کہا تھا کہ میاں نوازشریف کے ساتھ 20ارب ڈالر میں ڈیل ہو رہی تھی انہوں نے اس ڈیل سے پہلوتہی کرتے ہوئے ایک ارب ڈالر میں کام چلا لیا۔ وہ ایک ارب ڈالر کہاں کہاں گئے کس کس کو ملے، اس کے شواہد اب سامنے آ رہے ہیں۔ حافظ حسین احمد کا بیان دیکھ لیں۔ صرف انہی کے بیان پر موقوف نہیں ہے شواہد بھی یہی سب کچھ بتا رہے ہیں۔ لانگ مارچ ماضی میں اسی رقم سے ہوئے اب بھی تیاری تھی کہ پیپلزپارٹی نے استعفوں سے صریح انکار کرکے کئی لوگوں کو مایوس کر دیا۔ پی ڈی ایم تو گویا نزع کے عالم میں ہے مگر اس کے باوجود یہ پارٹیاں جان کنی کے عالم میں بھی عمران خان کی حکومت سے نجات کے لیے متحد رہیں گی۔ اختلافات میں مزید شدت آئے گی لیکن اتحاد برقرار رہے گا۔ یہ ان پارٹیوں کی مجبوری ہے۔ یہ لوگ اپنے کیے کا حساب نہ صرف دینے کے کے لیے تیار نہیں ہیں بلکہ حساب دے ہی نہیں سکتے۔ اسی ایک ایجنڈے کے گرد ان کا اتحاد گھومتا ہے اور گھومتا رہے گا۔ ایسے شدید اختلافات کے باوجود یہ ایک فورم پر اکٹھے ہو جاتے ہیں یہ انہی کا حوصلہ ہے۔ آج مسلم لیگ اور پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ لیڈرشپ ایک دوسرے کے سامنے ہے کل تک ایک دوسرے کو بہن بھائی کہنے والے آج طعنے دے رہے ہیں۔ مریم نواز زیادہ ہی غصے میں ہیں۔ یوسف رضا گیلانی کو قومی اسمبلی سے سینیٹر بنوایا گیا تو مسلم لیگ ن کی قیادت بمع پی ڈی ایم کی لیڈرشپ کے پی پی پی کے جیالوں کی طرح خوشی کا اظہار کر رہی تھی، جشن بنایا جا رہا تھا مگر جب گیلانی صاحب کو اکثریت کی بنا پر سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر منتخب کیا گیا تو یہی لوگ شدید دکھ اور کرب میں نظر آئے۔ مولانا تو دم سادھ گئے مریم نواز شریف نے سخت بیانات کی گولاباری شروع کر دی۔ مریم نواز نے کہا کہ چھوٹے سے عہدے کے لیے جمہوریت کو نقصان پہنچانا افسوسناک ہے، سلیکٹ ہونا ہے تو آپ کو عمران خان کی پیروی کرنی چاہیے، زرداری سب پر بھاری، والی بات شرمندگی ہے۔ ایک طرف لوگ آئین و قانون کی خاطر جدوجہد کر رہے ہیں، دوسری طرف لوگ چھوٹے سے فائدے کے لیے بیانیے کو روند رہے ہیں، چھوٹے سے عہدے کے لیے جمہوری جدوجہد کو بڑا نقصان پہنچایا گیا، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کا چھوٹا سا عہدہ ہے، اپوزیشن لیڈر سینیٹ کا عہدہ مل جاتا تو ہم نے کونسی حکومت بنا لینی تھی، آپ کو چھوٹا سا عہدہ چاہیے تھا تو نوازشریف سے مانگ لیتے۔ چھوٹے سے فائدے اور عہدے کے لیے بی اے پی سے ووٹ لے لیا، پہلی بار دیکھا لیڈر آف اپوزیشن سرکاری ارکان سے مل کر بنا، حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے ن لیگ، مولانا اور دیگر جماعتیں کافی ہیں۔اس کے علاوہ مریم نواز نے بہت کچھ کہا جس پر بلاول نے ترکی بہ ترکی تو جواب نہیں دیا تاہم اس صدمے سے نکلنے کے لیے ٹھنڈا پانی پی کر لمے سانس لینے کا مشورہ ضرور دیا۔ مریم نواز کے بیانات ان کی سیاسی تربیت کے بدترین فقدان کو ظاہر کرتے ہیں۔ میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ جب دو پارٹیوں میں اتحاد ہوتا ہے تو دونوں کو ایک ایک کلو نمک کھا لینا چاہیے تاکہ ایک دوسرے کی بات کڑوی نہ لگے۔ دراصل 11جماعتوں کا اتحاد کس کاز کے لیے تھا، اپنے اپنے مفاد کے لیے تھا۔ ایسے غیر فطری اتحاد زیادہ دیر نہیں چلتے۔ عمران خان کی حکومت کمزور تھی۔ پی ڈی ایم کی شکست و ریخت نے اسے مضبوط بنا دیا جو آسانی سے پانچ سال مکمل کر لے گی۔قارئین! غیرجانبدار مبصر کی حیثیت سے میرا یہ اخلاقی فرض ہے کہ میں قارئین ’’نوائے وقت‘‘ کو ملکی اور بین الاقوامی حالات سے آگاہ رکھوں۔ دراصل مسلم لیگ ن کا اندرونی انفراسٹکچر بھی کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ اقتدار کے دنوں میں اسے لاکھوں سپوٹران میسر ہیں مگر تھوڑا سا بُرا وقت آتے ہی جانثاروں اور محنت کرنے والے کارکنان کی کمی محسوس ہوتی ہے یہ سب کچھ دراصل ناقص تنظیمی پالیسی کا ردعمل ہے اور جب تک مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت دو تین بڑے گروپس سمیت بٹی رہے گی تب تک ’’چھتروں میں دال بٹتی رہے گی‘‘میرے اپنے تجزیے کے مطابق میاں محمد شہباز شریف اور محترمہ مریم نوازشریف کے درمیان موجود خلیج کو پُر کرنا نہایت ضروری ہے۔ مگر مسلم لیگ میں موجود خواجہ آصف اور احسن اقبال گروپس اپنے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر مریم نواز اور میاں شہبازشریف کے درمیان صلح ہونے نہیں دے رہے۔مگر مسلم لیگ ن کے ایک عام ورکر کو ان بڑوں کے درمیان چپقلش نے خاصا مایوس کر دیا ہوا ہے اور بادی النظر میں ایسا امکان نظر نہیں آتا کہ جب تک نوازشریف خود اس مسئلے کو حل نہ کروائیں تب تک مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نمبرز بنانے کے چکر میں ایک دوسرے کی گردن مارتے رہیں گے۔ خاص طور پر اس موقع پر محترمہ مریم نوازشریف کو آگے بڑھ کر کارکنوں کو حوصلہ اور دلاسا دینا ہوگا۔اور مولانا فضل الرحمن کی بلیک میلنگ سے حتی الوسع بچنے کی پالیسی اپنانا ہو گی۔ میری نظر میں مسلم لیگ آج بھی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے مگر پیپلزپارٹی اور دیگر پارٹیوں سے سیاسی اتحاد مسلم لیگ ن کے لیے زہرِ قاتل ثابت ہوگا۔دراصل مسلم لیگ ن کی قیادت بشمول محترمہ مریم نوازشریف کو اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ مسلم لیگ ن آج بھی ایک فائنل سیاسی قوت ہے۔وگرنہ وہ اس طرح کے سیاسی اتحاد قائم کرکے اپنی قوت کوسیاسی دیمک نہ لگاتے ۔میری یہ سیاسی پیشین گوئی ہے کہ آج اگر میاں محمد نوازشریف وطن واپس آگئے تو کلین سویپ دے سکتے ہیں۔آئندہ الیکشن میں ابھی دو سال باقی ہیں۔ اور بروقت کب اور کیسے کھیلنا ہے اس بات کا فیصلہ مسلم لیگ ن کی قیادت کو کرنا ہوگا۔
Column Name
Search
Select Year
2011
2012
2013
2014
2015
2016
2017
2018
2019
2020
2021
Select Month
January
February
March
April
May
June
July
August
September
October
November
December
Search
Next
Home
Back
Main Menu
Home
About The Author
Columns
Books
Gallery
Contacts
Published Books
Afkar e Sehar
Benazir Bhutto
Edison
Grand Agenda
Jeenay ka Fun
Sadion Ka Beta
Taliban Aur Aalmi Aman
Jalawattan Leader
Mashriq Maghrib Milaap
Pakistan Ki Kharja Policy
Sohar Wardi sey Wardi Tak
The Great Three
20 Dictators of The 20th Century
Hakayat Roomi
Taliban: The Global Threat